Breaking Posts

6/trending/recent

Hot Widget

Type Here to Get Search Results !

Subscribe Us

روٹرڈیم بندرگاہ:یورپ میں نارکوٹس سپلائی کا سب سے بڑا مرکز

روٹرڈیم کی بندرگاہ یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے، اور مشرقی ایشیا سے باہر دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے، جو نیدرلینڈ کے جنوبی ہالینڈ کے صوبے میں روٹرڈیم شہر میں اور اس کے قریب واقع ہے۔ 1962 سے 2004 تک، یہ سالانہ کارگو ٹنیج کے لحاظ سے دنیا کی مصروف ترین بندرگاہ تھیایک مصروف بندرگاہ ہے-
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ منشیات اسمگلنگ کرنے کا سب سے بڑا ٹھکانہ بھی ہے-گزشتہ دنوں ایک بحری جہاز جو کولمبیا سے پورٹ پر پہنچا اس پر ایک کنٹینر لگا ہوا تھا جو بظاہر فروٹ کا لگ رہا تھا لیکن اس کے اندر خوفیہ خانوں میں چارسو ملین ڈالر کی کوکین یا دیگر منشیات کو سپلائی ہوی-پورٹ سے ملک کے دیگر حصوں میں منشیات پہنچانے کے لیے باقاعدہ ایک گروہ کام کر رہا ہے جس نے تنخواہ دار ملازم رکھے ہیں ہیں ان کا کام یہ ہے ہے کہ وہ پوسٹ پہ کام کرنے کے بہانے آتے ہیں اور کنٹینر سے منشیات کو لے کے پورے ملک میں سپلائی کرتے ہی-ان لوگوں کے لئے ایک خاص نام استعمال کیا گیا جس کو کوکین کلکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے ہے ایک کلو چرس کے پیچھے پانچ سو یورو ملتے ہیں
ندرگاہ میں ایک کنٹینر پروسیسنگ کمپنی کے مالک آندرے کریمر کہتے ہیں، ’ہم نے انھیں پہلی بار تقریباً دو سال پہلے دیکھا تھا۔ پہلے سال میں ایک یا دو بار ایسے کنٹینرز آتے تھے اور ایسے ایک یا دو ہی لوگ تھے لیکن گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہر ہفتے میں تین سے چار بار ایسا ہوتا ہے جبکہ کلیکٹرز کے گروہ بھی دس سے بارہ افراد تک پہنچ چکے ہیں
بعض اوقات وہ کوکین کو بندرگاہ سے باہر نہیں لے جاتے ہیں۔ اس کی بجائے ان کا کام منشیات کو کسی بندرگاہ کے ملازم کی مدد سے مختص کردہ دوسرے کنٹینر میں منتقل کرنا ہے، جسے بعد میں ٹرک کے ذریعے بندرگاہ سے باہر لے جایا جاتا ہے۔ بعض اوقات گینگ بندرگاہ کے اندر بیٹھ کر ہی منشیات کی ترسیل کا انتظار کرتے ہیں۔
کریمر کہتے ہیں ’ہمیں حال ہی میں تین ہوٹل کنٹینرز ملے ہیں جن میں کلیکٹر کئی دن تک رہ سکتے ہیں جہاں وہ کھاتے، پیتے اور اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ہمیں گدے، پانی کی خالی بوتلیں اور کھانے کے ریپر بھی ملتے رہتے ہیں۔‘

لیکن اس ’ہوٹل‘ کنٹینر میں وقت گزارنا کبھی کبھار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہ
ستمبر کے اوائل میں ایک ایسے ہی ہوٹل کنٹینر میں موجود نو کوکین کلیکٹرز اس وقت مشکل میں آگئے جب کنٹینر کا دروازہ جیم ہو کر کھل نہیں سکا۔

روٹرڈیم پولیس کے سربراہ جین جینس بتاتے ہیں کہ 'اگر آپ پھل یا لکڑی سے بھرے کنٹینر میں ہوں تو یہ چیزیں بھی آکسیجن کا استعمال کرتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اندر کے لوگوں کے لیے ہوا کم رہ جاتی ہے۔‘
جین کے مطابق عام طور پر کوکین سمگلر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کنٹینر کو اندر سے کھولا جا سکے لیکن اس کیس میں کچھ ایسا ہوا کہ وہ باہر نہیں نکل سکے۔

2015 میں روٹرڈیم حکام نے بندرگاہ سے 15,000 کلوگرام سے زیادہ کوکین پکڑی تھی۔ 2020 میں یہ تعداد 61,000 کلوگرام تھی۔
پولیس چیف کے مطابق اس سال ان کا خیال ہے کہ وہ ساٹھ ہزار کلو گرام تک کوکین پکڑ لیں گے۔ 'ہم ہر سال ایک نیا ریکارڈ بناتے اور توڑتے ہیں۔ مجھے کسی قسم کا فخر نہیں، یہ اچھی بات ہے کہ ہم کوکین پکڑ لیتے ہیں لیکن ہر سال اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
اس گروہ کے افراد اتنے زیادہ طاقتور ہیں کہ وہ چلتے ہوئے جہاز سے اپنا سامان اتار لیتے ہیں ہیں اور شاید  حکام کو پتہ ہی نہیں چلتا


 

x

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Bottom